Tuesday 26 June 2018

کڑاکے دار گرمی ہے۔


کڑاکے دار گرمی ہے۔
پرسیپشن اور پراپیگنڈے کے لحاف، رضائیاں اور کمبل اتار کر فکروشعور کے ننگ دھڑنگ وجود کے ساتھ برہنہ حقیقتوں کا سامنا کریں تو سخت گرم موسم میں دسمبر کی یخ بستہ ہواؤں سے طاری ہونے والی کپکپی نصیب ہوتی ہے۔
کسی طاقتور کرپٹ کا آج کے دن تک کوئی عملی احتساب نہیں ہوا (میڈیا کا شور، عدالتوں سے بلند ہوتے احتسابی نعرے اور لوگوں کی توقعات محض پرسیپشن اور پراپیگنڈے کو تقویت دیتی ہیں)۔
حقیقت یہ ہے کہ جنہیں کرپٹ کہا جاتا ہے، اُن کا احتساب کسی دور میں نہیں ہوا۔ لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانے کے خواب دکھا کر رائج نظام ہمیشہ اپنے دوام کی راہ ہموار کر لیتا ہے۔ لوٹی ہوئی دولت آج کے دن تک واپس نہیں لائی جا سکی۔ رائے عامہ کو کامیابی سے تقسیم کر کے حکومتوں کی تبدیلی کا عمل ممکن بنا لیا جاتا ہے۔ چہرے وہی رہتے ہیں۔ کرپشن کا ناسور جوں کا توں قائم رہتا ہے۔ چند مہرے ادھر سے اُدھر کھسک جاتے ہیں یا کھسکا لئے جاتے ہیں۔
یا تو وطن عزیز میں کوئی کرپٹ ہے ہی نہیں یا پھر مقتتدر حلقے نہیں چاہتے کہ بے لاگ احتساب ہو اور راز آشکار ہوں۔ لگتا یوں ہے کہ اس حمام میں چند ایسے طاقتور لوگ بھی ننگے ہیں جو اپنے وجود پر لباس کا بھرم قائم رکھنے کے لئے دیگر ننگِ معاشرہ افراد کو بہرحال این آراو سمیت فرار و نجات کے دیگر آپشنز دینے کے حامی ہیں۔
ملک بھر میں جس ذوق و شوق سے سیاسی جماعتوں کے بینرز، ہورڈنگز آویزاں ہیں، جس طرح قرآنی آیات کا استعمال ہو چکا ہے، اور جس طرح "ان شاءاللہ" لکھ کر ایم پی اے اور ایم این اے بننے کی امیدیں پالی جا رہی ہیں اس سے لگ یوں رہا ہے کہ اب اس کے بعد صبر اور برداشت کے بارودی ڈھیروں نے بس پھٹنا ہے۔ کب کیسے؟ اس کا تعین آنے والے لمحات کریں گے۔
دھن، دھونس اور دھاندلی کا شاید یہ آخری معرکہ ہے۔ لگ رہا ہے۔
بہت سے دانشور رائج نظام کو قائم رکھنے کے حق میں ہیں کیونکہ ان کے نزدیک اس کا کوئی متبادل موجود نہیں۔ یہی رائج نظام کی عیاری ہے کہ اس نے دستانے جمہوریت کے پہن رکھے ہیں ۔
چند سرپھرے لوگ جو اس رائج نظام کے خلاف کمربستہ ہیں، وہ دراصل اس رائج نظام کو جمہوریت نہیں سمجھتے۔ وہ اس ظلم کے نظام کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ سب ادارے اپنی اپنی حدود میں رہ کر کام کریں۔ کوئی کسی پر ظلم نہ کرے۔ کوئی دھوکہ نہ دے۔ عدالتیں ڈلیور کریں اور امیر و غریب کے لئے یکساں نظام عدل یقینی بنائیں۔ تعلیم و علاج کا نظام بہتر ہو۔ عام لوگوں کا احساس محرومی ختم ہو۔
اور جب ہم رائج نظام کے خلاف بولتے ہیں تو ہمیں طعنہ دیا جاتا ہے کہ ہم جمہوریت کے خلاف بولتے ہیں۔ رائج نظام کسی پہلو سے جموریت نہیں۔ یہ دورنگا نظام محض منافقت کو جنم دیتا ہے۔ ہر سطح پر منافقت کو عروج دیتا ہے۔ اس رائج نظام میں وہی آگے بڑھ سکتا ہے جو طاقتور ہے۔ جس کے پاس اختیار ہے۔ باقی سب محکوم۔
ہر باشعور انسان سمجھ رہا ہے کہ اب حبس بڑھ چکا ہے۔ لاوے ابل رہے ہیں۔ صبر اور برداشت کے بارودی ڈھیر پھٹنے کو ہیں۔ معاشرہ آٹوپائلٹ موڈ میں جانے کے قریب ہے۔ پھر کوئی کسی کے قابو میں نہیں ہو گا۔ جھوٹ بولنے والے دیوار کے ساتھ لگ چکے ہیں۔ دھوکہ دینے والوں کے آپشن ختم ہو رہے ہیں۔ لیکن پھر بھی وہ قائم باش ہیں۔ کہ شاید کہیں سے کوئی امید کی کرن جاگے اور وہ بچ جائیں۔ جھوٹ اپنا سب عروج دیکھ چکا۔ اسے اب مٹنا ہی ہے۔ بہت سے مقتدر افراد کی کوشش ہے کہ الوہی قاعدوں کو بدل دیا جائے۔ لیکن بہرحال الوہی قاعدے ہمیشہ سے اٹل ہیں۔ باطل کو دبنا ہی ہے۔ حق کو غالب آنا ہی ہے۔
رہی بات ہم عام لوگوں کی تو پہلی قوموں پر عذاب آ چکے۔ ہم خود ہی ظلم کا نظام قائم رکھنا چاہیں گے تو ہم پر بھی قہر ٹوٹیں گے۔ ازل سے یہی قاعدہ ہے۔
بسم اللہ کیجئے ۔ رکھیں قائم رائج نظام کو۔ اگلے پانچ سال پھر رونا نہیں۔ سڑکوں پر نہیں نکلنا۔ توڑ پھوڑ نہیں کرنی۔ اور اگر اس رائج نظام سے واقعی عاجز آ چکے ہیں تو ایماندار اور صالح کردار لوگوں کا انتخاب کریں۔ جو ہمیشہ عام لوگوں میں گھل مل کے رہتے ہیں۔ کسی فرعون صفت، قارون صفت اور ہامان صفت کو اپنے اوپر غالب رکھیں گے تو قصور آپ کا اپنا ہو گا۔
اللہ اکبر -


No comments:

Post a Comment